رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج تفسیر کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله عبدالله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں قرآن کریم کے اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ شوری کی آخری آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا : ابھی تک یہ واضح ہو گیا کہ کلمہ یا کلام الہی کی دو قسم ہے ، ایک قسم تکوینی ہے ، خارج میں موجود تمام کلمات الہی ہیں جیسے حضرت عیسی (ع) کہ ان کو کلام الہی کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور ایک قسم کلام اعتباری ہے ، جیسا کہ قرآن کریم و تمام آسمانی کتاب کے الفاظ ، یہ سب اعتباری امور میں سے ہیں کہ کبھی یہ سریانی یا عربی ہوتے ہیں ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : کبھی ایک کلمہ ایک قوم کے درمیان بہت زیادہ معنی کا حامل ہے لیکن دوسرے قوم کے درمیان اس کی طرح زیادہ معنی کا حامل نہیں ہوتا جیسے عین لفظ عربی زبان میں بہت زیادہ معنی کا حامل ہے لیکن دوسرے قوم کے درمیان معنی نہیں رکھتا ، تب یہ معلوم ہوا کہ یہ کلام اعتباری قسم میں سے ہیں ، کیونکہ اعتبار و معاہدہ کے مطابق ہے ، اس منزل میں کہ قرآن کریم حکیم ہے اس میں یہ اعتبار و معاہدہ کا کوئی عمل و دخل نہیں ہے ، وہ جو سورہ زخرف کے ابتدا میں آیا ہے کہ معاہدہ کا کوئی عمل و دخل نہیں ہے ، انسانیت کا وطن جس جگہ پر ہے وہ معنی اس الفاظ سے رابطہ قائم کر لیتے ہیں ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے اس بیان کے ساتھ کہ انسانیت کے حدود سے باہر اعتبارات نہیں ہیں ، تا کہ اس معنی کو الفاظ و کلمات کے ذریعہ بیان کرے ، کہا : رسول اکرم (ص) بھی یا بغیر واسطہ کے یا واسطہ کے ذریعہ اپنے نفس کے اندر خود کو پاتے ہیں ، رسول اکرم (ص) کے نفس کے باہر یہ نہ عبری ہیں اور نہ ہی عربی ہیں بلکہ «من لدن علیم حکیم» ہیں لیکن جب رسول اکرم (ص) کے نفس پر وارد ہوتے ہیں تو «عربی مبین» میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔
انہوں نے آیہ «وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُکَلِّمَهُ ٱللَّهُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِن وَرَآئِ حِجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُولًۭا فَیُوحِىَ بِإِذْنِهِۦ مَا یَشَآءُ ۚ إِنَّهُۥ عَلِىٌّ حَکِیمٌۭ ﴿٥١﴾» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اظہار کیا : پردہ کے پیچھے یہ نہیں ہے کہ وہ درخت جو پردہ میں ہے بات کرے ، مسئلہ «من وراء حجاب» یعنی یہ نہیں ہے کہ وہ حجاب میں بات کرتا ہے بلکہ حضرت موسی (ع) کا وجود مبارک اس درخت کے درمیان سے بات سنتا تھا ، درخت کے پردہ سے اس بات کو سنتا تھا ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے اس اشارہ کے ساتھ کہ نزول و انزال کے درمیان کوئی حقیقی فرق نہیں ہے بیان کیا : اگر فاعل کی طرف نسبت دیتے ہیں تو انزال ہوگا اور اگر قابل کی طرف نسبت دیتے ہیں تو نزول ہوگا ، پیغمبر اکرم (ص) کا وجود مبارک نہ لفظ میں اور نہ ہی معنی میں دخیل ہے ، البتہ آن حضرت کے نفس کے دائرہ میں حقیقت و اعتبار کا رابطہ انجام پاتا ہے ۔
انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ مخلصین کس طرح اس دنیا سے کوچ کرتے ہیں بیان کرتے ہوئے کہا : ہم لوگوں کا بدن دنیا میں ہے اور ہم لوگوں کے روح کا بعض حصہ دنیا میں ہے ورنہ اگر کوئی شخص عقل و قلب کی چوٹی پر پہوچ جائے تو وہ اس دنیا میں ہرگز نہیں رہ سکتا ہے ، حضرت امام حسین علیہ السلام کا ایک نورانی بیان ہے کہ گویا ہم لوگ اصل میں دنیا میں زندگی نہیں کرتے ہیں ، دنیا میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ قلب و عقل کو جگہ دے سکے ، امام علی علیہ السلام کے نورانی بیان میں جو کہ خطبہ متقین میں اہل تقوا کے سلسلہ میں ہے کہ وہ لوگ اس دنیا میں زندگی بسر نہیں کرتے ہیں ، امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آخرت کے فرزندوں میں ہو جاو ۔