‫‫کیٹیگری‬ :
17 November 2015 - 18:35
News ID: 8709
فونت
آیت الله نوری همدانی نے تاکید کیا ؛
رسا نیوز ایجنسی ـ حضرت آیت الله نوری همدانی نے مختلف مسائل جس میں دہشت گردوں سے مقابلہ کے سلسلہ میں مغرب ممالک کی دوغلی پالیسی کی مذمت کی اور کہا : کفر کے سربراہ بحرین ، سعودی عرب و صیہونیوں کی مظالم پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن فرانس کے دھماکہ کی مذمت کرتے ہیں حالانکہ یمن و فلسطین میں بے شمار لوگ قتل کئے جا رہے ہیں ۔
آيت الله نوري همداني


رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله حسین نوری همدانی مرجع تقلید نے صوبہ قم کے بسیج تنظیم کے سربراہ سے ملاقات میں بیان کیا : دین مقدس اسلام انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں خاص کر مسلمانوں کے لئے توجہ رکھتا ہے اور مسلمانوں کے لئے ذمہ داری و ظائف مشخص کیا ہے ۔

انہوں نے قدرت و عزت کو مسلمانوں کی ایک اہم ذمہ دای میں سے جانا ہے اور اظہار کیا : اسلام نے ہمیشہ مسلمانوں سے درخواست کی ہے کہ قدرت و عزت کا حامل ہو کیونکہ اسلام کے مقابلہ دشمنوں میں کینہ و بغض پایا جاتا ہے ۔

مرجع تقلید نے قرآن کریم میں اسلام کے دشمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : قرآن کریم میں مسلمانوں کے لئے تین قسم کے دشمن بیان کئے گئے ہیں کہ ان میں سب سے پہلے کفار ہیں اور اس کے بعد یھودی و صیھونی ہیں کہ ہمیشہ اسلام کی دشمنی کو اپنے امور کے لئے مشخص کیا ہے ؛ منافقین بھی ان میں سے ایک دشمن ہیں کہ خداوند عالم سورہ مبارکہ بقرہ میں ان لوگوں کی صفت بیان کی ہے ۔

انہوں نے اس سوال کو بیان کرتے ہوئے کہ دشمن کے مقابلہ میں ہماری کیا ذمہ داری ہے ؟ اور کس طرح اس ذمہ داری کو انجام دیا جائے بیان کیا : قرآن کریم میں 34 بار جہاد و اس کے مشتقات کو بیان کیا گیا ہے ؛ جہاد کے بغیر عزت و قدرت کے لئے کوئی راستہ نہیں پایا جاتا ہے ؛ تمام الہی پیغمبروں نے بھی اسی راستے پر قدم بڑھایا ہے ۔

حضرت آیت الله نوری همدانی نے صحیفه نور میں امام خمینی (ره) کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : خداوند عالم نے جس رسول کو بھی بھیجا ہے اس کے ایک ہاتھ میں خدا کی کتاب اور دوسرے ہاتھ میں جہاد کے وسائل عنایت کی ہے جیسے حضرت ابراهیم (ع) کہ ان کے ایک ہاتھ میں صحف ابراهیم (ع) اور دوسرے ہاتھ میں کلہاڑی تھی ۔

انہوں نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک ہاتھ میں قرآن کریم اور دوسرے ہاتھ میں تلوار کہ جو جنگ کے وسائل میں سے ہے موجود تھا ؛ اسی طرح امام علی علیہ السلام کے ایک ہاتھ میں نہج البلاغہ اور دوسرے ہاتھ میں ذوالفقار رہا ہے ۔

حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے استاد نے معاشرے میں شہادت و جہاد کی ثقافت کو زندہ رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے بیان کیا : اگر جہاد و شہادت نہ ہو تو سلامتی و قدرت نہیں پایا جائے گا اس وجہ سے کوشش کرنی چاہیئے کہ معاشرے میں جہادی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے مختلف وسائل کا استعمال کیا جائے ۔

انہوں نے کہا : میں جب صوبائی سفر کے لئے گیا تھا تو اکثر صوبوں کے شہروں میں شہیدوں کی بہت ساری تصویر لگی ہوئی تھی لیکن افسوس کی بات ہے کہ صوبہ قم المقدس میں ایسی چیز کمتر دیکھنے کو ملتا ہے حالانکہ دوسرے صوبے اس مقدس شہر قم سے نمونہ حاصل کریں ۔

مرجع تقلید نے اس وضاحت کے ساتھ کہ شہدا کا وصیت نامہ بہت ہی سبق آموز ہے بیان کیا : اکثر شہدا نے اپنے وصیت نامہ میں بیان کیا ہے کہ ولایت فقیہ کی وجہ سے محاذ پر جنگ کے لئے گئے ہیں اور بعض نے امام خمینی (رح) کو خطاب کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ آپ ہمارے ابراہیم اور ہم آپ کے اسمائیل ہیں اور یہ دور و زمانہ منا کا قربانی گاہ ہے اور شہید ہونے پر ہم فخر کرے نگے کہ مجھے شہادت حاصل ہوئی ہے ۔

انہوں نے اس بیان کے ساتھ کہ درس خارج میں تین قسم کا جہاد بیان کیا گیا ہے کہا : کفار کے ساتھ جہاد ، باغیوں کے ساتھ جہاد باغی یعنی وہ لوگ جو اسلامی حکومت کو قبول نہ کرتے ہوں جہاد کی تین قسم ہیں کہ جو خارج کے درسوں میں بیان کیا گیا ہے لیکن امام خمینی (ره) نے قرآن کریم سے استفادہ کرتے ہوئے آٹھ قسم کا جہاد بیان کیا ہے ۔

حضرت آیت الله نوری همدانی اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے کہا : مظلوم و غربت کی آزادی کو امام خمینی (ره) نے جہاد کے عنوان سے تعارف کیا ہے اور جہاد کی دوسری قسم فتنہ کے مقابلہ قیام کرنا ہے ؛ داعش کی پیدائش بھی ایک فتنہ ہے ؛ سعودی عرب بھی ایک فتنہ ہے جو کہ ظاہر طور پر تو قرآن مجید کی ترویج کرتا ہے اور حرمین الشرفین کا خادم ہے لیکن اندرونی اعتبار سے اسلام ناب کا دشمن ہے اور بہت زیادہ مال داعش کی حمایت اور اس کے وسائل کے لئے خرچ کرتا ہے ۔

انہوں نے مختلف مسائل جس میں دہشت گردوں سے مقابلہ کے سلسلہ میں مغرب ممالک کی ایک چھت و دو ہوا کی سیاست کی مذمت کی ہے وضاحت کی : کفر کے سربراہ بحرین و سعودی عرب و صیہونیوں کی مظالم پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن فرانس کے دھماکہ کی مذمت کرتے ہیں حالانکہ یمن و فلسطین میں بے شمار لوگ قتل کئے جا رہے ہیں ۔

انہوں نے اس بیان کے ساتھ کہ اسلام کی سیاست کی اصل پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں کو قدرت میں ہونا چاہیئے اور یہ بغیر جہاد و شہادت کے ممکن نہیں ہے بیان کیا : صدر اسلام میں جب کوئی شخص شہید ہوتا تھا تو اس کے بدن کے زخم کو شمار کیا جاتا تھا کہ اس کا ہر زخم میڈل کے معنی میں تھا اور امام حسین علیہ السلام اس دلیل کی وجہ سے کہ کسی شخص کے بدن پر اتنا  زخم نہیں تھا کہ جتنا امام حسین علیہ السلام کے جسم میں تھا اسی وجہ سے سید الشہدا کا لقب دیا گیا ۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬