رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس تفسیر کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله عبدالله جوادی آملی نے علامہ طباطبائی دار القرآن میں منعقدہ تفسیر کے اساتید کی بارہویں اجلاس میں علامہ طباطبائی کی تفسیر المیزان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : قرآن مجید کی تفسیر قران مجید کی شاخ ہے ؛ قرآن کریم ایک نازل کتاب ہے اور اکثر مفسروں نے بحث کی ہے کہ انزال و تنزیل کے درمیان کیا فرق پایا جاتا ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : افسوس کی بات ہے کہ مفسروں نے حقیقت نزول اور نازل کے ساتھیوں کے سلسلہ میں تحقیق و بحث نہیں کی ہے ، کیونکہ المیزان کی تفسیر سے پہلے تفسیروں میں یہ دو کمی پائی جاتی تھی ، کہا جا سکتا ہے کہ علامہ طباطبائی نے اس امور میں برتری حاصل کی ہے ؛ اگر کہا جائے کہ قرآن کریم بارش کی طرح زمین پر نازل کیا گیا ہے کہ بعض مفسرین بھی اس طرح کا نظریہ رکھتے ہیں ، توجہ رکھنی چاہیئے کہ اس نظریہ کے مطابق مطالب کی گہرائی و بطون جو پائی جاتی ہے اس میں پانی و مٹی کی بو ہوگی ۔
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد نے اس بیان کے ساتھ کہ باطن و بارش پر مبنی مفسرین کے نتائج پانی و خاک کی بو دیتی ہے اظہار کیا : اگر کہتے ہیں کہ قرآن کریم ایک رسی کی طرح ملی ہوئی ہے نہ یہ کہ پھینکی گئی ہے تب بھی اس سے پانی و خاک کی مہک سمجھی جائے گی اور اس سے عرش کی مہک بھی درک کی جا سکتی ہے ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے کہا : بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ قرآن مجید تنھا نازل ہوا ہے لیکن توجہ کرنی چاہیئے کہ قرآن کریم نام علی (ع) و اولاد علی (ع) کے نام کے ساتھ ہے خاندان عترت فطرت کے دائرہ میں قرآن کی شناخت حاصل نہیں کی ہے ؛ کوئی بھی اسباب قرآن اور اہل بیت علیہم السلام سے ایک دوسرے کو الگ نہیں کر سکتا ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے اس بیان کے ساتھ کہ وہ جو زمین پر قرآن سے آشنا ہوتے ہیں آسمانی نہیں ہو سکتے بیان کیا : اہل بیت علیہم السلام قرآن کے ساتھ تھے ، قرآن کریم کے ساتھ آئے اور قرآن کے ساتھ رہے نگے ؛ اگر یہ دونوں نزول میں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہوتے تو صعود میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہو سکتے ہیں ۔
انہوں نے بیان کیا : کوئی بھی اسباب قرآن ناطق و قرآن صامت کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے ہیں ، مرحوم مفید نقل کرتے ہیں جب خداوند عالم فرماتا ہے «الست بربکم» پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد سب سے پہلے کسی نے « ہاں» کہا ہے تو وہ علی علیہ السلام تھے ، قرآن عترت کے بغیر یعنی قرآن بغیر قرآن کے اور یہ ممکن نہیں ہے ؛ ممکن نہیں ہے کہ کوئی زمینی فکر کرے اور قرآن مجید کو سمجھے ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے بیان کیا : وہ رسی جس کو مفسروں نے پکڑ رکھا ہے اس کو خداوند عالم نے پکڑا ہے تا کہ انسان بلندی حاصل کرے جتنا بھی زمخشری کی طرف حرکت کرے نگے گہرائی تک پہوچے نگے لیکن یہ گہرائی پانی و خاک کی بو دیتی ہے لیکن علامہ طباطبائی کی تفسیر المیزان ادبیات و عرضی اعتبار سے پانی و مٹی کی بو دیتی ہے اور صعودی اعتبار سے عرش کی خوشبو دیتی ہے ۔
انہوں نے امام علی علیہ السلام سے ایک رویت جس کا دارو مدار «العلما باقون ما بقی الدهر» ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی : نام لانے والے کا نام باقی رہنا چاہیئے ، شہید کا مقام و منزلت اس قدر ہے کہ ایک ملک اس کا مقروض ہے لیکن شہید جب تک مرتا نہیں ہے زندہ نہیں ہوتا ہے لیکن عالم مرنے سے پہلے زندہ ہے ۔
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد نے اس بیان کے ساتھ کہ عالم کی زندگی موت سے پہلے اور موت کے بعد ہے اور مجاہد کی زندگی موت کے بعد ہے ، بیان کیا : علماء کی قلم و دوات شہدا کے خون سے افضل ہے ، علماء کا مقام کوئی کم نہیں ہے اور اس کو سستے میں نہیں بیچنا چاہیئے ۔
انہوں نے وضاحت کی : دنیا میں پایا جانے والا القاب کسی انسان کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل نہیں ہے ، شہید جو کہ اپنی جان دیتا ہے تا کہ ایک مقام و منزلت حاصل کرے لیکن ایک عالم دین اپنی زندگی میں اسی مقام پر پہوچتا ہے تو پھر کیوں ایسا نہ ہو ؛ جب تک انسان الہی نہ ہو باقی نہیں ہے ، شہید جب تک خون نہیں دیتا ہے زندگی مرزوق نہیں ہوتا ہے لیکن جس کے دوات کی روشنائی شہدا کے خون سے افضل ہے ہمیشہ زندہ و باقی ہے ، اگر کوئی اس مقام کو غیر خدا کے لئے فروخت کرتا ہے وہ غبن کرنے والا ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے اس بیان کے ساتھ کہ بعض دنیا کی شناخت دنیا شناسی کے ماہروں کے لئے مشخص ہو چکے ہیں اظہار کیا : قرآن کریم انسان کا اس طرح تعارف کرایا ہے کہ اس سلسلہ میں گہرائی سے غور کیا جائے ، انسان حقیقی کئی پرتوں کے ساتھ ہے اور خداوند عالم کے متعلق ہے ؛ انسان خداوند عالم کا میزبان اور اس کا مہمان ہو سکتا ہے ۔
انہوں نے اپنی گفت وگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا : انسان ہر سال حج کے موقع پر (ضیوف الرحمان) خدا کے مہمان ہیں کہ امید کرتا ہوں خداوند عالم خائنوں کے شر سے حرمین و شریفین کو نجات دے ؛ اگر انسان رمز و راز کا اہل ہو تو بہت سارے حقائق و مسائل کو سمجھ سکتا ہے ، یہ کہ کہا جاتا ہے کہ ممکن نہیں ہے قرآن اور اہل بیت (ع) ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہو سکتے یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ آئے ہیں ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے اس بیان کے ساتھ کہ علی علیہ السلام اور اولاد علی علیہ السلام سے بہتر دوست و رفیق موجود نہیں ہے بیان کیا : انسان کو چاہیئے کہ مشکل و سخت سفر میں قرآن و اہل بیت (ع) کے ساتھ ہمسفر ہوں ؛ مظلوموں کی آہ آسمان تک پہوچ رہی ہے اور اسلامی معاشرہ جیسے یمن ، فلسطین ، عراق و ایران کے شہید ہوئے اور منا کے شہدا مظلوم ہیں ۔
انہوں نے بیان کیا : امید کرتا ہوں خداوند عالم سامراجی و صیہونی حکومت کو نابود کرے اور تکفیروں کا شر خود ان کی طرف لوٹے اور اسلامی حکومت و قائد انقلاب اسلامی کی حفاظت کرتے ۔