06 June 2015 - 13:59
News ID: 8185
فونت
رسا نیوز ایجنسی ـ فلسطین فاﺅنڈیشن کے راہنما: امام خمینی(رہ) کے کردار کو زمان و مکان میں قید نہیں کیا جا سکتا ۔
امام خميني(رہ)


رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق فلسطین فاﺅنڈیشن کے راہنما ثاقب اکبر نے امام خمینی(رہ) کی شخصیت کو زمان و مکان میں قید نہ ہونے والی شخصیت جانا ہے اور اپنے مندجہ ذیل مقالہ میں اپنے تاثرات س طرح پیش کیا ہے ۔

بعض لوگوں کو یوں لگتا ہے کہ جیسے اسلام نے جن عظیم کرداروں کا تعارف کروایا ہے وہ فقط کتابوں میں بستے ہیں، خارجی دنیا میں چلتے پھرتے کم از کم اب دکھائی نہیں دے سکتے، لیکن اگر واقعی امام خمینیؒ کی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو یوں لگتا ہے جیسے خواب و خیال حقیقت بن گئے ہیں۔ کتابوں سے نکل کر عظیم کردار باہر آگیا ہے اور اس آب و تاب سے باہر آیا ہے کہ اس نے ماضی کے عظیم اور عظیم تر کرداروں پر بھی انسانی اعتماد کو زندہ کر دیا ہے اور ایمان کو مضبوط تر کر دیا ہے۔ ایسے ہی تو نہیں شہید باقر الصدر نے فرمایا تھا:

تم امام خمینی کی ذات میں اس طرح سے جذب ہو جاؤ جیسے وہ اسلام میں جذب ہوچکے ہیں۔

عجیب لگتا ہے جب ہم امام خمینی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں۔ استعماری قوتوں اور سامراجی طاغوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والا کیسے محروم، مظلوم اور پابرہنہ انسانوں کے لئے تڑپتا ہے۔ اسے اس کی پرواہ نہیں کہ وہ خود تہران میں بیٹھا شمالی تہران کے موٹی گردن والے بے رحم سرمایہ داروں کو للکار رہا ہے۔ ایک شب زندہ دار عارف دن چڑھے اپنے عوام کے ساتھ پیار، محبت اور شفقت کی باتیں کر رہا ہے۔ وہ ایک عام سپاہی کے ایمان افروز جذبۂ جہاد و ایثار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:

اے کاش! من یک پاسدار بودم
اے کاش! میں ایک پاسدار اور سپاہی ہوتا۔
پھر وہ کہتا ہے:
من دست پاسداران را می بوسم
میں سپاہیوں اور نگہبانوں کے ہاتھ چومتا ہوں۔

دنیائے فقاہت کو نئی وسعتوں اور بلندیوں سے آشنا کرنے والا، اجتہاد کو زمان و مکان کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے والا اور فقیہوں کو تدبیر و تدبر کی دعوت دینے والا، فقہ و اجتہاد کا عظیم راہنما بیک وقت مربئ اخلاق بھی ہے اور میدان شجاعت کا پیشوا بھی۔

امام خمینی کے دروس تفسیر پر نگاہ ڈالی جائے تو اور بھی کئی پہلو کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ انھوں نے قرآن حکیم کے لفظوں کی اوٹ میں چھپے بطون کی طرف جھانکنے کی دعوت دی اور علماء کے سامنے معانئ قرآن کے نئے پرت کھولے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے سامنے ان کا زانوئے تلمذ طے کرنا اور اس کے حضور ایک عام سے طالب علم کی حیثیت سے دست بستہ کھڑے ہوجانا اور اپنی بات کو فقط ایک احتمال کے طور پر پیش کرنا، تمام مفسرین کو ایک گہرے سبق اور درس سے آشنا کرتا ہے۔

دنیا کی تمام سیاسی قوتیں اور سیاسی مراکز جب یہ سمجھ رہے تھے کہ اب عالم سیاست فقط مادی تصور کائنات کی گرفت میں رہے گا، مشرق ہو یا مغرب روحانیت اور عالم باطن کا کوئی معنی اب عالم سیاست میں نہیں ہوگا۔

جب ایک طرف سرمایہ داری نظام اپنی گرفت اور شکنجے کو آگے بڑھا رہا تھا اور دوسری طرف اشتراکیت اس کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑی تھی اور دنیا کے سیاسی مراکز میں ایک ہی فکر غلطاں تھی کہ یا ہمیں سرمایہ داری نظام کے جھنڈے تلے کھڑا ہونا ہے یا پھر اشتراکیت کے پرچم تلے ہمیں پناہ ملے گی اور دونوں نظام ہائے زندگی کائنات کی مادی تعبیر کی دو مختلف شکلوں کے علاوہ کچھ نہ تھے، ایسے میں امام خمینی نے عرصۂ سیاست میں قدم رکھا۔

لاشرقیہ ولا غربیہ کا نعرۂ مستانہ بلند کیا اور دنیا کے ہر طرح کے طاغوت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور لا الہ الا اللہ کے عظیم سیاسی معنی کو دنیا سے روشناس کروایا تو دنیا حیران ہو کر رہ گئی کہ کیا روحانی تصور کائنات کے کسی مرکز اقتدار پر جلوہ افروز ہونے کا امکان عالم امکاں میں ابھی باقی تھا۔ ہاں امام خمینی کے وجود سے کائنات کی روحانی تعبیر پھر سے خارجی وجود پاکر سامنے آگئی۔

امام خمینی کی شخصیت ان کے جانے کے بعد رزق خاک نہیں ہوگئی

امام خمینی کی شخصیت وسعت پذیر ہے، آگے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ زمان و مکان کی سرحدیں اسے مقید نہیں کرسکتیں۔ اس لئے کہ اس کی دوستی کا ایک اور صرف ایک ہی مرکز تھا اور وہ وہ صاحب لامکاں تھا، جس کے حضور اس کی خشیت دیکھنے والوں نے ایسی ایسی باتیں بیان کیں کہ انسان کو ایک مدت ورطۂ حیرت رکھنے کے لئے کافی ہیں۔

انھوں نے پوری دنیا کے مستضعفین اور پسماندہ طبقوں کی حمایت میں دنیا کے مستکبرین کو للکارا۔ انھوں نے تمام ادیان کے ماننے والوں کو اسی ایک نقطے پر اکٹھے ہونے کی دعوت دی۔ انھوں نے مسلمانوں کو بھی فرقہ واریت سے نکل کر اتحاد و وحدت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کا قرآنی پیغام دیا۔

سرمایہ داری اور استعماری قوتوں کی مخالفت کا معنی ان کے نزدیک انسانی علوم میں اہل مغرب کی ترقی کی مخالفت نہ تھا۔ وہ انسانی ارتقاء اور پیش رفت کے لئے ہر علم کے حصول پر زور دیتے رہے۔ دین کا اصل مقصد ان کے نزدیک تزکیہ نفس اور پروردگار سے ایسا رابطہ تھا جو بندے کو اپنے ہم نوع انسانوں سے غافل نہ کردے۔ خود ان کا ذاتی عمل بھی ان کے اس نظریئے کی شہادت دیتا ہے۔

وہ اگر خطیب جماران تھے تو نثر و نظم میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ ان کے فلسفیانہ مطالب، ان کے فقیہانہ جواہر، دنیا کو متغیر کر دینے والے ان کے سیاسی افکار اور انسانی روح میں سما جانے والے ان کے اخلاقی مواعظ ہمیشہ دین و دانش کے موتی لٹاتے رہیں گے اور آنے والی نسلیں ان سے بصیرتیں سمیٹتی رہیں گی۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬