رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان، لکھنو کے آصفی مسجد ، بڑا امام بارگاہ میں لکھنو کے امام جمعہ حجت الاسلام سید کلب جواد نقوی نے اس ہفتہ نماز جمعہ کے خطبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام حسن مجتبی علیہ السلام کی روز شہادت کی مناسبت سے مومنین کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا : بعض لوگ کہتے ہیں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پڑھے لکھے نہیں تھے حالانکہ سوال کرنے کا اختیار اس کو ہے جو جس سے سوال کر رہا ہے زیادہ علم کا حامل ہو ، کم علم زیادہ علم والے سے کیا سوال کر سکتا ہے ۔
انہوں نے علم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دلیل بیان کرتے ہوئے کہا : ہمارے نبی کے عالم اور پڑھے لکھے ہونے کی روشن دلیل خود صاحب سلونی امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ہیں ۔
سید کلب جواد نقوی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : اس زمانہ میں صرف ۱۷ لوگ پڑھے لکھے شمار کئے جاتے تھے جس میں امام علی علیہ السلام کا نام سرفہرست ہوا کرتا تھا جن کی ہر طرح کی پرورش آغوش رسول میں ہوئی ہوں تو اب آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگر شاگرد علمی میدان میں سر فہرست ہے تو اس کے استاد کا کیا مقام ہوگا ۔
انہوں نے علم و اظہار علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کو دو الگ الگ شئی جانا ہے اور بیان کیا : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا علم اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مدینۃ العلم ہیں ۔
امام جمعہ لکھنو نے کہا : خداوند عالم فرتاما ہے میں نے قرآن مجید رسول کے قلب پر نازل کیا اور قرآن مجید کے لئے کہا ہے کہ اگر یہ پہاڑوں پر نازل کرتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتا تو جس کا قلب اتنا مضبوط ہو تو اس کی عقل کتنی مضبوط ہوگی ۔
انہوں نے بیان کیا : جب خداوند عالم کسی کا ظلم ختم کرنا چاہتا ہے تو چند ابابیل کے ذریعہ ابرہہ کے لشکر کو نابود کر دیتا ہے اسی طرح یہ غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیئے کہ امریکا کہاں؟! اور جمہوری اسلامی ایران کہاں ؟! بلکہ یہ دیکھو کے اللہ کس کی حمایت کرتا ہے کس کی تائید کرتا ہے اور کون اللہ کے ساتھ ہے ۔
کلب جواد نقوی نے کہا : خدا کی طرف سے منتخب امور میں غلطی نہیں ہوا کرتی ابابیل سے بھی غلطی ہو سکتی تھی اور کنکڑی خانہ کعبہ پر بھی گر سکتی تھی مگر خدا کی طرف سے بھیجا ہوا پرندے سے غلطی نہیں ہو سکتی تو اس کی طرف سے بھیجا گیا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے غلطی کیسے ممکن ہے ۔ وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیکر بشریت میں ضرور تھے مگر ہم جیسے ہرگز نہیں تھے ۔
انہوں نے کہا : خداوند عالم قرآن کریم کے سلسلہ میں فرماتا ہے اس میں ہر شئی کا علم موجود ہے اور اے رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم میں نے ہر علم آپ کو عطا کیا، اب آپ چاہیں قرآن کریم کہ لیجئے یا محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کہ لیجئے ۔ جب اللہ کا علم لفظ کی صورت میں ظاہر ہوا تو قرآن کریم بنا اور جب نور کی صورت اختیار کی تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن گیا ۔ اسی قرآن کے ایک جز کا نام حسن مجتبی علیہ السلام ہے ۔
امام جمعہ لکھنو نے تبری کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا : تبرا کے معنی ہیں دوری ، کردار سے اپنا کردار الگ رکھنا ہے تبرا، جسمانی دوری نہیں بلکہ کردار اور عمل سے دوری ، جتنا اہل بیت سے قریب ہوتے چلے جاوگے اسی مقدار دشمن سے دور ہوتے جاوگے ، اس زمانہ کے بعض کم علم و فہم ذاکروں کو خود نہیں معلوم کہ تبرا کیسے کہتے ہیں، تبری الگ چیز ہے اور لعنت الگ شئی ہے ، لعنت کی معنی بد دعا ہے یعنی اللہ کی رحمت سے دوری ۔
حجت الاسلام سید کلب جواد نقوی نے کہا : امام حسن مجتبی علیہ السلام تشریف لے جا رہے تھے کہ شام کا رہنے والا ایک شخص سامنے آیا اور امام علیہ السلام پر تہمت لگائی اور ان کی بے احترامی میں کچھ الفاظ بولنا شروع کر دیا جب وہ خاموش ہوا تو امام نے اس شخص کے کاندھے پر محبت سے ہاتھ رکھ کر فرمایا اے شخص لگتا ہے تو مسافر ہے ، بہت تھکا ہوا ہے ، بھوکا ہے چل میرے گھر وہاں آرام کر لے ، کھانا کھا لے اور جب تھکاوت دور ہو جائے تو جب چاہنا چلے جانا ، امام کی طرف سے اس محبت و شفقت کو دیکھ کر اس نے قدموں میں سر رکھ دیا اور کہنے لگا مجھ سے بہت غلطی ہو گئی ہے مجھے معاف کر دیجئے اس کے بعد وہ شخص زندگی بھر امام کی خدمت میں مشغول رہا یہ ہے تبرا کا حقیقی مصداق و معنی ۔