رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت اللہ سید محمدعلی علوی گرگانی نے ثقافتی امور کے سربراہوں سے ملاقات میں سورہ مبارکہ زمر کی آیت ۹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : خداوند عالم نے بعض مسائل کو اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ مسائل واضح و روشن لگتا ہے اور اگر انسان ذرا سا بھی تدبر سے کام لے تو فورا اس مطلب کو درک کرتا ہے ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : مثال کے طور پر خداوند عالم بیان کرتا ہے کیا ظلم و نور مساوی ہیں ؟ یا یہ کہ کیا نا بینا اور بینا انسان دونوں برابر ہیں ؛ اس طرح کے سوالات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو سمجھایا جائے کہ اگر انسان اس سلسلہ میں کوئی توجہ نہ کرے تو یہ علم و کمال اس کو نقصان دینے کی علامت ہے ؛ کبھی کبھی سوال کے مقصد مطالب کو روشن و واضح کرنا ہوتا ہے ۔
حضرت آیت اللہ علوی گرگانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : خداوند عالم سورہ مبارک زمر کی آیت ۹ کے ذیل میں «إِنَّمَا یَتَذَکَّرُأُولُو الْأَلْبَابِ» کو بیان کیا ہے حالانکہ ان چیزوں کے مشابہ کوئی مطالب ان آیات میں بیان نہیں کی ہے اور یہ نکتہ قابل بیان ہے کہ اگر شخص علم ، کمال و جہل کی شناخت نہیں کر سکتا ہے تو صاحب عقل نہیں ہے ۔
انہوں نے اس وضاحت کے ساتھ کہ خداوند عالم ہر شخص کو علم عطا نہیں کرتا بیان کیا : خداوند عالم سب سے پہلی منزل پر تقوا قرار دیتا ہے اس کے بعد اس کو علم عطا کرتا ہے اور قرآن کریم میں بھی بیان کرتا ہے «اتقواللہ و یعلمکم اللہ» اسی وجہ سے خداوند عالم اس شخص کو علم عطا کرتا ہے کہ جو صاحب تقوا ہو ؛ وہ لوگ صاحب تقوا ہیں کہ جو الہی واجبات کو انجام دیتے ہیں اور محرمات کو ترک کرتے ہیں اور یہ دو انسان کے دو پروں کے مانند ہیں ۔
حوزہ علمیہ قم میں دوس خارج کے مشہور و معروف استاد نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں « انسان کے لئے تقوا کی مثال پرندہ کے لئے دو پر کی مثال ہے » اسی طرح جیسا کہ اگر پرندہ سے اس کا ایک پر جدا کر دیا جائے تو وہ پرندہ ایک پر سے پرواز نہیں کر سکتا ہے تو انسان بھی معنوی پرواز چاہتا ہے تو چاہیے کہ وہ بھی دونوں پر کا حامل ہو ۔
انہوں نے علم کو تقوا کے ساتھ خداوند عالم کی قبولیت کا سبب جانا ہے اور بیان کیا : خداوند عالم انسان کو نورانیت کا کمال عنایت کرے گا کہ اس شخص کا کلام ، قول و منطق نورانی ہوگا اور سبھوں کے لئے قابل قبول ہوگا ۔