رسا نیوز ایجنسی کا قائد انقلاب اسلامی کی خبر رساں سائیٹ سے منقول رپورٹ کے مطابق آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افغانستان میں قومی وفاق کی حکومت کی تشکیل کو اچھی جدت عملی قرار دیا اور افغانستان کے مسائل کے تصفئے کی امید ظاہر کی۔ آپ نے فرمایا کہ ان شاء اللہ قومی وفاق کی حکومت حقیقی اور اصلی شکل اختیار کرے گی، کیونکہ افغانستان کی مشکلات کا حل قومیتوں اور حکام کے درمیان حقیقی اتحاد و ہم ہنگی میں مضمر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے افغانستان میں مختلف قومیتوں اور شیعہ سنی فرقوں کی ایک طویل عرصے سے پرامن بقائے باہمی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم قدیم زمانے سے افغانستان کے عوام کو بڑے صابر، قناعت پسند، سخت کوش، دیندار اور ادبی ذوق سے سرشار عوام کی حیثیت سے پہچانتے ہیں، لیکن قومیتوں کے اختلافات اور تفرقے کے اسباب کسی بھی قوم کو کمزور کر سکتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران کی جانب سے افغان عوام کی ہمیشہ حمایت کئے جانے کا حوالہ دیا اور اس ضمن میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کی اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے مخالفت اور افغان مجاہدین کی مدد کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا: "اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے اور تقریبا 30 لاکھ افغان مہاجرین کا میزبان ہے۔"
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران میں 16 ہزار افغان اسٹوڈنٹس اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبا کی موجودگی کا ذکر کیا اور اسے افغانستان کے لئے قابل قدر موقع قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افغان حکومت کو چاہئے کہ ان طلبا کی حوصلہ افزائی کرنے والے پروگرام ترتیب دیکر انھیں واپس جاکر اپنے وطن کی خدمت کرنے کی ترغیب دلائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹیکنالوجی اور معیشت کے میدانوں میں ایران کے وسیع وسائل اور صلاحیتوں کا ذکر کیا اور افغانستان میں قدرتی ذخائر اور افرادی قوت کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تعاون کی سطح میں فروغ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ دوستانہ ماحول میں اور باہمی تعاون کے ذریعے سرحدی آبی مسئلے جیسے اختلافی امور کو حل کر لیا جائے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گزشتہ برسوں میں افغان مجاہدین کو حاشئے پر ڈالنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ 'جنگ سالار' جیسے نام دیکر مجاہدین کو حاشئے پر ڈال دینا غلط پالیسی ہے، کیونکہ ایسے ملک میں جو عسکری حملوں اور گہرے فتنوں کی زد میں ہو، خود عوام کو بھی مجاہدت کے جذبے کے ساتھ دفاع وطن کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اگر دفاع نفس کی قوت نہ ہو تو اغیار کی مداخلت کا راستہ کھل جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے دیکھا کہ امریکیوں نے افغانستان میں کتنے انسانوں کو قتل کیا اور کتنا نقصان پہنچایا اور اب بھی پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے برطانیہ، سابق سوویت یونین اور حالیہ برسوں میں امریکا کی جارحیت کے مقابلے میں افغان عوام کے جذبہ استقامت کی ستائش کی اور کہا کہ افغان عوام میں استقامت اور دینداری کا جذبہ بہت عمیق ہے اور تاریخ میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ کوئی بھی قابض قوت افغانستان میں پیر نہیں جما سکی۔
اس ملاقات میں افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ نے افغانستان کے عوام اور حکومت کو ایران کی جانب سے حاصل حمایتوں کی قدردانی کی اور کہا کہ افغانستان میں قومی وفاق کی حکومت کی تشکیل ایک اچھا نمونہ تھا اور اس سے متعدد مشکلات کا سد باب ہو گیا۔
ڈاکٹر عبد اللہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سب سے بڑی مشکل بدامنی اور دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہماری کوشش یہ ہے کہ اللہ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے عوام کے اتحاد اور حمایت سے نیز اپنے ایرانی بھائیوں اور دوستوں کے تعاون سے جو جہاد اور استقامت کے زمانے سے لیکر اب تک ہمیشہ جاری رہا ہے، مشکلات کا تصفیہ کریں اور تمام شعبوں میں عدل و مساوات قائم کریں۔
ڈاکٹر عبد اللہ نے قائد انقلاب اسلامی کی طرف سے افغانستان کے عوام کی حمایت اور افغان طلبہ کی تعلیم کے سلسلے میں آپ کے حالیہ حکم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان حمایتوں کی وجہ سے افغانستان کی حکومت اور عوام کی نظر میں ایران کا بہت خاص اور نمایاں مقام ہے۔ ڈاکٹر عبد اللہ نے مزید کہا کہ ایران اور افغانستان کے درمیان تعاون کے بہت اچھے امکانات موجود ہیں اور ہم ایرانی حکام سے اپنی ملاقاتوں میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ تعاون کی سطح بڑھانے کے طریقوں کا جائزہ لیا جائے۔
اس ملاقات میں پروٹوکول کے مطابق ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری بھی موجود تھے۔