رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ملی یکجہتی کونسل کے صدرصاحبزادہ ڈاکٹر محمد ابو الخیر زبیر اور سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے اپنے ایک متفقہ بیان میں بیان کیا : کسی بھی مسلمہ اسلامی مکتب فکر کی تکفیر جائز نہیں ۔عالم اسلام کے تمام ذمہ دار علماء اور دینی ادارے اہل تسنن اور اہل تشیع کے مسلمہ مکاتب فکر کو مسلمان قرار دے چکے ہیں ۔
انھوں نے کہا : ذرائع ابلاغ میں ایک گروہ کی جانب سے ایسا موقف پیش کیا جارہا ہے جو ملک بھر کے اکابرو جید علماو مفتیان کرام اور مشائخ عظام کے متفقہ موقف کی نفی پر مبنی ہے۔
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے رہنماوں نے مزید کہا : ملی یکجہتی کونسل پاکستان جس میں پاکستان کے تمام مسالک کے جید علماء اور اہم مذہبی تنظیمیں شامل ہیں، امت کے اتحاد و وحدت کی ترویج اور انتہا پسندانہ تکفیری روش کے خلاف مسلسل جدوجہد کر رہی ہے۔
انھوں نے یاد دہانی کرتے ہوئے بیان کیا : تاریخی متفقہ بائیس نکات پر دستخط کرنے والے علماء میں تما م شیعہ سنی مکاتب فکر کے جید علمائے کرام اور مفتیان عظام شامل تھے۔ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور تحریک ختم نبوت کی جدو جہد میں بھی تمام مسالک کے علماء ہمیشہ شریک رہے ہیں ۔ مزید برآں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے ضابطہ اخلاق میں ممتاز شیعہ سنی علمائے کرام اور مفتیان عظام نے ایک دوسرے کی تکفیر نہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔
کونسل کے مرکزی راہنماؤں نے ذرائع ابلاغ میں حقائق کی نشر و اشاعت کے لیے عالمی حیثیت کے حامل دو اہم اعلانات جاری کیے ہیں جن میں عالمی سطح کے جید علمائے کرام نے تمام شیعہ سنی مسلمہ مکاتب فکر کی تکفیر کو ناجائز قراردے رکھا ہے۔ یہ دو اہم دستاویزات اعلان مکہ اورا اعلان عمان کے نام سے شہرت رکھتی ہیں ۔ ان دونوں اعلامیوں کو اسلامی نظریاتی کونسل اپنی رپورٹ ’’ اسلام اور انتہا پسندی‘‘ میں شامل کرکے شائع کر چکی ہے :
اعلان عمان
اردن کے دارالحکومت عمان میں 27۔29؍جمادی الاولیٰ 1426ھ؍4؍6 جولائی 2005 کو’’اسلام کی حقیقت اورمعاصر معاشرے میں اس کا کردار‘‘ کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں یہی موقف اختیار کیا گیا اوران فتاویٰ اورکانفرنس کی سفارشات کو بنیاد بنا کرکانفرنس نے اعلان عمان کے نام سے ایک بیان جاری کیا۔ اس اعلان کا متن مع ترجمہ قبل ازیں اسلامی نظریاتی کونسل کی 2006ء میں شائع ہونے والی رپورٹ ’’اسلام اور دہشت گردی ‘‘ میں بھی شامل کیا جا چکا ہے :
وفقاًلماجاء فی فتوی فضیلۃ الامام الأکبر شیخ الأزھرالمکرّم، وفتوی سماحۃ آیۃ اللہ العظمی السید علی السیستانی الأکرم، وفتوی فضیلۃ مفتی الدیار المصریۃ الاکرم، وفتاوی المراجع الشیعیۃ الأکرمین (الجعفریۃ والزیدیۃ)،وفتوی فضیلۃ المفتی العام لسلطنۃ عمان الأکرم، وفتوی مجمع الفقہ الاسلامی الدولی (منظمۃ المؤتمر الاسلامی۔جدۃ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ)،وفتوی المجلس الأعلی للشؤون الدینیۃ الترکیۃ،وفتوی فضیلۃ مفتی المملکۃ الأردنیۃ الھاشمیۃ ولجنۃ الافتاء الأکرمین فیھا، وفتوی فضیلۃ الشیخ الدکتور یوسف القرضاوی الأکرم،
ووفقاً لما جاء فی خطاب صاحب الجلالۃ الھاشمیۃ الملک عبداللہ الثانی ابن الحسین ملک المملکۃ الأردنیۃ الھاشمیۃ فی افتاح مؤتمرنا،
ووفقاً لعلمنا الخالص لوجہ اللہ الکریم،
ووفقاً لما قدم فی مؤتمرنا ھذا من بحوث ودراسات ومادار فیہ من مناقشات، فاننا، نحن الموقعین أدناہ،نعرب عن توافقنا علی مایرد تالیاً، واقرارنا بہ:
انّ کل من یتبع أحد المذاھب الأربعۃ من أھل السنّۃ والجماعۃ (الحنفی،والمالکی ، والشافعی،والحنبلی)والمذھب الجعفری، والمذھب الزیدی، والمذھب الاباضی،والمذھب الظاھری، فھومسلم، ولا یجوز تکفیرہ، ویحرم دمہ وعرضہ ومالہ۔ وأیضاً،ووفقاً لما جاء فی فتوی فضیلۃ شیخ الأزھر،لایجوز تکفیر أصحاب العقیدۃ الأشعریۃ، ومن یمارس التصوف الحقیقی۔وکذلک لایجوزتکفیر أصحاب الفکر السلفی الصحیح۔کمالا یجوز تکفیر أی فءۃ أخری من المسلمین توٌمن بااللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ وبرسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأرکان الایمان، وتحترم أرکان الاسلام، ولا تنکر معلوماً من الدین بالضرورۃ۔(اعلان عمان)
ترجمہ:
عزت مآب امام اکبر مکرم جناب شیخ الازھر کے فتویٰ
سماحۃ آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے فتویٰ
دیار مصر کے مفتی اعظم کے فتویٰ
شیعیان جعفریہ وزیدیہ کے قابل احترام مراجع کے فتاویٰ
سلطنت عمان کے مفتی العام عزت مآب کے فتویٰ
بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی(اسلامی کانفرنس تنظیم ،جدہ،سعودی عرب) کے فتویٰ
ترکی کی سپریم کونسل برائے دینی امور کے فتویٰ
اردن کی سلطنت ہاشمیہ کے مفتی اعظم اورفتویٰ کمیٹی کے مفتیانِ کرام کے فتویٰ
اور عزت مآب جناب ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے فتویٰ کے مطابق؛
ہماری اس کانفرنس میں سلطنت ہاشمیہ اردن کے عزت مآب بادشاہ عبداللہ ثانی بن حسین کے افتتاحی خطاب کے مطابق :
خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے ہمارے علم کے مطابق؛
اور ہماری اس کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالات ،لیکچرز اورمذاکرات کے مطابق ہم زیر دستخطی درج ذیل بیان سے اتفاق کرتے اوراس کا اقرار کرتے ہیں:
جو شخص اہل سنت والجماعت کے مذاہب اربعہ (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) میں سے کسی ایک یا مذہب جعفری، مذہب زیدی، مذہب اباضی یا مذہب ظاہری کی اتباع کرے، وہ مسلمان ہے اوراس کی تکفیر جائز نہیں ہے، اس کا خون، اس کی عزت اوراس کا مال حرام ہے اور جناب شیخ الازھر کے فتویٰ کے مطابق اشعری عقیدہ رکھنے والوں،حقیقی تصوف سے شغف رکھنے والوں اورصحیح سلفی فکررکھنے والوں میں سے بھی کسی کی تکفیر جائز نہیں ہے۔جیسا کہ مسلمانوں کی کسی بھی ایسی جماعت کی تکفیر جائز نہیں ہے، جواللہ سبحانہ وتعالیٰ، اس کے رسولؐ اورارکان اسلام پرایمان رکھتی ہو، ارکان اسلام کا احترام کرتی ہو اوردین کی جو باتیں بالضرورۃ معلوم ہیں، ان میں سے کسی کا انکار نہ کرتی ہو۔
اعلامیہ مکہ :
اسلامی کانفرنس تنظیم اور مجمع فقہ اسلامی کی دعوت پر 19 اکتوبر 2006 کو عراق کے 50 ممتاز شیعہ سنی علما مکہ میں اکٹھے ہوئے اورانھوں نے عراق کی پرتشدد اور خون ریز صورت حال پر غوروفکر کیا اور ایک اہم فتویٰ جاری کیا ۔ اس تاریخی دستاویز پر اسلامی کا نفرنس تنظیم کے سیکرٹری اکمل الدین احسان اوغلو، مجمع فقہ اسلامی کے سیکرٹری محمد حبیب بن خوجہ، عالمی مجلس برائے تقریب مذاہب اسلامی کے سیکرٹری آیت اللہ تسخیری اور علماء اسلام کی عالمی یونین کے سیکرٹری محمد سلیم العوا نے گواہ کی حیثیت سے دستخط کیے۔ یہ اعلامیہ دس نکات پر مشتمل ہے۔ہم ذیل میں اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں :
مسلمان وہ ہے جو اللہ کی توحید اورحضرت محمدؐ کی نبوت کی گواہی دے۔ یہ بنیادی اصول شیعہ اور سنی دونوں پر بلا استثنا مساوی طور پر لاگو ہوتا ہے۔ ان دونوں مکاتب فکر کے مشترکات ان کے مختلفات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ دونوں کے اختلافات کا تعلق فقط رائے اور تعبیر سے ہے۔ ان کے اختلافات کا تعلق ایمان یا ارکان اسلام سے نہیں ہے۔مسلمانوں کی جان ،مال،عزت اور شہرت قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں حرمت کی حامل ہے۔ لہٰذا مسلمان مرد ہو یا عورت شیعہ ہو یا سنی اُسے قتل کرنا، اُسے نقصان پہنچانا، اُس پر تشدد کرنا، اُس کے مال اورجائیداد پر حملہ کرنا ، اسے بے گھر کرنا یا اُسے اغوا کرنا جائز نہیں ۔
تمام عبادت خانے محترم ہیں جن میں مساجد اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر مسلموں کے عبادت خانے شامل ہیں۔ شیعہ وسنی علما کو چاہیے کہ اتحادویکجہتی کے اصولوں پر قائم رہیں۔نیز وہ قرآنی آیات’’والصلح خیر‘‘ اور ’’ تعاونواعلی البروالتقوی‘‘ کی روشنی میں قومی اتفاق کے حصول کے لئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں۔