23 February 2015 - 00:12
News ID: 7838
فونت
حجت الاسلام راجہ ناصر عباس جعفری :
رسا نیوز ایجنسی ـ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ نے بیان کیا : دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دنیا دو قطبی تھی، دو طاقتوں نے انسانوں کو تقسیم کر رکھا تھا ۔
حجت الاسلام راجہ ناصر عباس جعفري


رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ حجت الاسلام راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے ایک خطاب میں بیان کیا : دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دنیا دو قطبی تھی، دو طاقتوں نے انسانوں کو تقسیم کر رکھا تھا، ایک بائیں بازو کے ترقی پسند لوگ تھے، جو ایک مکمل نظریہ کے حامل تھے، ترقی پسند مصنفین کی انجمنیں تھیں، ان کے مد مقابل امریکہ تھا، جسے دائیں بازو کی طاقت کہا جاتا تھا۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : دائیں بازو کی طاقت میں امریکہ نے اپنی من مانی قوتوں کو اپنے بلاک میں شامل کیا، جن میں وہابی ریاست سعودی عرب شامل تھی، ان طاقتوں نے جہان اسلام کی مرکزی قیادت وہابیت کے سپرد کر دی، وہابیت نے تیل کے پیسیوں سے پوری دنیا میں مساجد و مراکز بنائے اور اہل سنت کو تسخیر کرنے کی کوشش کی، لیکن اہل سنت نے عبدالوہاب نجدی کو قبول نہ کیا، فلسطین بھی ہم سے دائیں بازو کی طاقتوں امریکہ و اسرائیل، اور مسلم امہ کے خائن حکمرانوں کے ذریعہ چھین لیا گیا، بائیں بازو والے خدا سے لڑ رہے تھے لیکن منافق نہ تھے، دائیں بازو کی طاقتوں کا کام اسلام دشمنی تھا، 1967 تک مسلمانوں کی طاقت صفر ہو کر رہ گئی، روس کے افغانستان میں آنے اور انقلاب اسلامی ایران کے بعد حالات تبدیل ہوئے۔

ناصر عباس جعفری نے بیان کیا : انقلاب اسلامی ایران دونوں سپر طاقتوں امریکہ و روس کے خلاف تھا، یہ پہلا انقلاب تھا جو ان کی مرضی کے خلاف برپا ہوا، لاشرقیہ لاغربیہ کا نعرہ لیکر یہ انقلاب امید کی کرن ثابت ہوا، انقلاب نے مسلم امہ کے اتحاد کی بات کی، کھوکھلے رہبران کو بے نقاب کیا، اسرائیل کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا گیا، اس انقلاب نے عرب آزادی پسند قوتوں کی حمایت کی، انقلاب کو اندرونی اور بیرونی طور پر مشکلات کا شکار کر دیا گیا، چند ماہ کے اندر اٹھارہ ہزار انقلابیوں کو استعمار نے مار ڈالا، ایک ہی دن میں صدر و وزیراعظم کو شہید کیا گیا، اس کارستانی میں دائیں اور بائیں بازو کی دونوں طاقتیں شریک تھیں۔

انہوں نے تاکید کی : انقلاب نے امریکا کے سیکیورٹی سسٹم کو توڑ ڈالا تھا، اس طرح عالمی استکبار کے ساتھ ٹکراو کا آغاز ہوا، انقلاب لانے کی تحریک میں پینسٹھ افراد شہید ہوئے، انقلاب کے تحفظ میں لاکھوں شہید ہوئے، پھر بیرونی طور پر تکفیر کا فتنہ کھڑا کیا گیا، تاکہ شیعہ سنی کے درمیان تنازعات کھڑے کئے جائیں، اسی طرح شیعوں کے اندر اختلافات پیدا کئے گئے، تاکہ تقسیم کرکے مذہب کو مذہب سے لڑایا جائے، وہابیوں نے ہمارے ساتھ ساتھ اہل سنت کی بھی تکفیر کی، عراق نے انقلابی حکومت پر حملہ کیا، مسلمان کو مسلمان سے استعمار نے لڑوا دیا، افغانستان میں دیوبندیت، پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ اور امریکہ نے مل کر طاقت کا توازن بگاڑا، نفرتوں نے جنم لیا۔

حجت الاسلام ناصر عباس جعفری نے وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا : موجودہ زمانہ میں ایک طرف مقاومت کا بلاک ہے جس میں ایران، عراق، لبنان، فلسطین اور شام کے ساتھ ساتھ روس اور چین بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب عرب ریاستیں اور امریکہ و اسرائیل کا بلاک ہے۔ چین اور روس نے کئی مرتبہ شام سے متعلقہ فیصلوں کو ویٹو کیا، میڈیا میں بھی سو سے زیادہ عربی چینل ہیں، جو امریکہ و اسرائیل کی خدمت کرتے ہیں، العربیہ اور الجزیرہ اسی میڈیا وار کا حصہ ہیں، امریکہ، اسرائیل اور سعودی ریاستیں خطہ میں امریکی بالادستی چاہتی ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ نے بیان کیا : پاکستان میں شیعہ و سنی نے سیاسی جدوجہد نہ کی جس کی وجہ سے دیوبندیت ہی سیاست میں رہی، شیعوں اور سنیوں نے مل کر پیپلز پارٹی کو سپورٹ کیا، اہل سنت کے بعد پاکستان میں شیعہ اکثریت ہونے کے باوجود غیر منظم رہے۔

حجت الاسلام ناصر عباس جعفری نے کہا : کمزور پاکستان کی خواہشمند قوتوں نے پاکستان میں تکفیریوں کی پشت پناہی کی، انڈیا، سعودی اور دائیں بازو کی طاقتوں امریکہ و اسرائیل کو کمزور پاکستان سوٹ کرتا ہے، انڈیا دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان بھی پاکستان میں کام کر رہی ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ دنیا بھر کے دہشت گرد پاکستان میں متحرک ہیں۔ اہل تشیع ان دہشت گردوں کے مقابل سیسہ پلائی دیوار ہیں جنہیں دشمن گرانا چاہتا ہے، ہمارا دشمن وہی ہے جو فوج، اہل سنت اور پاک عوام کو مار رہا ہے، فوج کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا اشد ضروری امر ہے، مشترکہ دشمن کا قلع قمع کرنے کے لئے فوج کے ساتھ بہتر رابطہ قائم کرنا ضروری ہے، رائے اور افکار فوج تک متنقل کرنے چاہیں، فوج اور نیوی کے اندر تکفیری سرایت کر چکے تھے۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬