تحریر: ثاقب اکبر
پاکستان میں اگرچہ مرکز میں ایسی جماعتیں ہی حکومت بناتی رہی ہیں، جنھیں قومی جماعتیں کہا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ پاکستان کے تمام طبقوں کی نمائندگی کے دعوے کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں۔ تاہم ایسی جماعتیں بھی اسمبلیوں میں پہنچ جاتی ہیں، جو علاقائی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں۔ البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جنھیں ہم قومی جماعتیں کہتے ہیں، وہ حسب ضرورت صوبائیت، علاقائیت یا فرقہ واریت کا سہارا نہیں لیتیں، تاہم ان کا مجموعی تاثر، نعرہ یا دعویٰ یہی ہے۔
آیئے پہلے انہی کا کچھ ذکر کر لیتے ہیں، جنھیں ہم قومی جماعتیں کہتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ماضی اس امر کا گواہ ہے کہ اس نے انتخابی مقاصد کے لئے ”جاگ پنجابی جاگ“ کا نعرہ لگایا اور پنجاب کے عوام میں ”پنجابیت“ کو ابھارنے کے لئے اپنے آپ کو پنجابیوں کا حامی یا نمائندہ ظاہر کیا۔ اسی طرح دوسری بڑی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی، نے ہمیشہ ”سندھ کارڈ“ سے استفادہ کیا ہے۔ حالانکہ اس کی قائد کو ”چاروں صوبوں کی زنجیر“ کہا جاتا رہا ہے۔ جب بڑی جماعتوں کا یہ حال ہے تو چھوٹی جماعتیں اگر اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ایسے نعروں کا سہارا لیں تو ان سے کیا شکایت۔
ہم نے اگرچہ سرخی میں لسانی اور صوبائی کے الفاظ استعمال نہیں کئے، تاہم اس میں شک نہیں کہ بعض جماعتیں ان عناوین کا سہارا بھی لیتی ہیں۔ صوبائیت کا سہارا لینے والی دو قومی جماعتوں کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔ لسانیت کا سہارا لینے والی سب سے بڑی جماعت ”متحدہ قومی موومنٹ(MQM)“ ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں اردو بولنے والوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرکے، اس جماعت نے معاشرے کی تقسیم میں جو کردار ادا کیا ہے، اس کے اثرات سے نکلنے کے لئے سو فیصد توبہ کے ساتھ ساتھ ابھی بہت وقت بھی درکار ہے۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو بیشتر علاقائی جماعتوں نے حکومتیں بنائی ہیں یا حکومتوں کا موثر حصہ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانیت کے بجائے انہوں نے ہمیشہ لسانی، صوبائی یا علاقائی حقوق کی بات کی ہے۔ اس ضمن میں کئی جماعتوں کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے بیشتر جماعتیں وفاقی اور صوبائی سطح پر قومی کہلانے والی جماعتوں کی شریک کار رہی ہیں۔
اس حقیقی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فرقہ واریت فقط مذہبی جماعتوں کا خاصا ہے، لسانی، علاقائی اور صوبائی عناوین سے معاشرے کی تقسیم میں حصہ دار جماعتیں بھی دراصل فرقہ وارانہ ہی ہیں۔ علاوہ ازیں یہی جماعتیں مذہبی فرقہ واریت سے حسب ضرورت استفادہ کر لیتی ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ذکر کیا جاسکتا ہے، جس پر ”پنجابی طالبان“ اور ”لشکر جھنگوی“ سے قریبی تعلقات کا الزام اب تک لگایا جاتا ہے اور اس کے لئے شواہد بھی پیش کئے جاتے ہیں۔
جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ کم و بیش تمام مذہبی جماعتیں فرقہ وارانہ ہیں۔ کسی پر مسلکی رنگ زیادہ ہے، کسی پر کم۔ اسی طرح کسی کے نام میں فرقہ واریت نظر آجاتی ہے اور کسی کے نام میں دکھائی نہیں دیتی، لیکن جماعتیں بہرحال خاص مسلک سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے تمام دھڑے سنی حنفی دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سے وابستہ مذہبی مدارس بھی اسی مکتب فکر سے متعلق ہیں۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے نام میں اس امر کی طرف کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا۔ جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی مکتب فکر کی نمائندہ نہیں ہے۔ اس کے لٹریچر میں بھی فرقہ واریت کے بجائے اتحاد امت کا ذکر زیادہ ہے، لیکن خارجی حقیقت یہ ہے کہ غالب طور پر اس میں دیوبندی مکتب فکر سے تعلق یا اس کی طرف رجحان رکھنے والے افراد پائے جاتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر اہل حدیث اس میں شامل ہیں۔ کہیں کہیں مثال کے طور پر بریلوی اور شیعہ کا نام بھی لیا جاسکتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی میں شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کا مجموعی تاثر فرقہ وارانہ نہیں ہے، تاہم اس تاثر کو قائم رکھنے اور بہتر بنانے کے لئے اسے جرات مندانہ اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ جمعیت علمائے پاکستان اپنے تمام دھڑوں کے ساتھ سنی حنفی بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے اور اسی مکتب فکر کی نمائندگی پر اس کے تمام گروہ اصرار اور افتخار کرتے ہیں۔ تحریک جعفریہ اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے تو نام سے ہی ان کے خاص مسلک کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں مجلس وحدت مسلمین بھی عملی طور پر شیعوں ہی کی جماعت ہے۔ دیگر جماعتوں کا بھی یہی حال ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں مختلف صوبے بھی ہیں، مختلف زبانیں بولنے والے بھی ہیں، مختلف قومیتوں کا وجود بھی قابل تسلیم اور اسی طرح مختلف مذہبی مسالک بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان ایک ہے۔ ہمارے خیال میں مختلف قومیتوں، زبانوں، مسلکوں اور مذہبوں کا ہونا قابل اعتراض نہیں، یہ سب خارجی حقائق ہیں اور سب کو اس ملک میں آزادی سے رہنے اور قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہونا چاہیے، لیکن یہ سوال یہ نہایت اہم ہے کہ کیا پاکستان میں انتخابی سیاست اس تقسیم کی بنیاد پر ہونا چاہیے کہ نہیں؟ ہماری واضح اور سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
سیاست دراصل پاکستان کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس ملک میں سب علاقوں، سب زبانوں اور سب مذہبوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں اور وہ وہی ہیں، جو پاکستان کے آئین میں لکھے ہوئے ہیں اور عمومی طور پر سب کے لئے مساوی ہیں۔ پاکستان کی مشکل دراصل اس کی حکمرانی کی مشکل ہے۔ حکمران اگر خوف خدا رکھتے ہوں اور سارے پاکستانیوں کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہوں تو پھر ایسی کسی تقسیم کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اگر ایک ایسی جماعت موثر حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے، جو سارے پاکستانیوں کے حقوق کی نگہبان ہو تو شاید پاکستانی عوام بھی تقسیم کی علمبردار جماعتوں سے اپنا رخ موڑ لے۔ کسی خاص علاقے کو ماضی میں نظر انداز کیا گیا ہے تو اس پر خصوصی توجہ رکھنا یا کسی خاص مسلک پر ظلم روا رکھا گیا ہے تو اسے اس ظلم سے نجات دلانا اور اس سے اظہار ہمدردی کرنا، یہ الگ بات ہے اور علاقائیت اور مسلکی بنیاد پر سیاست کرنا الگ بات ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ہم سے کہا جائے کہ آپ زمینی حقائق سے صرف نظر کرکے بات کر رہے ہیں تو ہم کہیں گے کہ 100 زمینی حقائق کے مقابلے میں یہ ایک حقیقت زیادہ قوی ہے کہ عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والی موثر حکومت پاکستانیوں کو درکار ہے۔ خدا کے سامنے جوابدہی کا احساس رکھنے والی اور عوام کا درد رکھنے والی حکومت پاکستان کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی حکومت جو باہر سے ڈکٹیشن نہ لے اور ایک آزاد، خود مختار اور باوقار پاکستان بنانے کے لئے کمر ہمت کس لے۔ کام تو مشکل ہے، لیکن کرنے کا کام یہی ہے۔ عام انتخابات نزدیک آرہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر عوام اور سیاسی جماعتیں اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لیں۔/۹۸۸/ ن۹۴۰